Love Story by WELL-MAN
محبت ادھار نہ رکھو، ورنہ وقت سود کے ساتھ وصول کر لے گا!
محبت ادھار نہ رکھو، ورنہ وقت سود کے ساتھ وصول کر لے گا! انتون چیخوف کے شاہکار روسی ادب سے ایک مختصر کہانی:
ایک بوڑھا کسان اپنی بیمار بیوی کو کمزور گھوڑے کی کھینچی ہوئی گاڑی میں بٹھا کر دور دراز شہر علاج کے لیے لے جا رہا تھا۔
سفر لمبا تھا، راستہ سنسان۔ وہ آہستہ آہستہ بولنے لگا، جیسے خود سے بات کر رہا ہو، مگر درحقیقت، وہ اپنی بیمار بیوی کو تسلی دے رہا تھا۔ یہ عورت چالیس برس سے اس کے ساتھ تھی—ہر دکھ، ہر تکلیف، ہر تنگی میں اس کا ساتھ نبھایا تھا۔ کھیتوں میں کام کیا، گھر کا سارا بوجھ اٹھایا، مگر کبھی شکایت نہ کی۔
آج، اس سفر میں،کسان کے دل پر ایک عجیب بوجھ تھا۔اچانک،اسےاحساس ہواکہ وہ ہمیشہ اسکے ساتھ سخت رویہ رکھتا رہا۔ کبھی نرمی سےبات نہ کی،کبھی محبت بھرے الفاظ نہ کہے وہ سوچنے لگا:
“میں نے تم پر سختی کی، زندگی نے بھی تم پر سختی کی۔ میں روزمرہ کی بھاگ دوڑ میں کبھی تمہیں پیار بھرے دو بول نہ کہہ سکا، کبھی وہ مسکراہٹ نہ دے سکا جو پانی کی طرح شفاف ہو، کبھی وہ لمحہ نہ دے سکا جس میں محبت اور اپنائیت ہو!”
راستے بھر وہ افسوس کے الفاظ دہراتا رہا، جیسے گزرے چالیس سالوں کی محرومیوں کا ازالہ کرنا چاہتا ہو—ان الفاظ کے ذریعے، جو وہ ہمیشہ کہنے سے قاصر رہا۔ وہ وعدے کرتا رہا، خواب دکھاتا رہا کہ آئندہ وہ اسے ہر خوشی دے گا، ہر خواہش پوری کرے گا…
آخرکار، جب وہ شہر پہنچے، تو کسان اگلی نشست سے اترا، تاکہ پہلی بار اپنی بیوی کو بانہوں میں بھر کر ڈاکٹر کے پاس لے جائے۔ لیکن… وہ سرد ہو چکی تھی، بے جان۔
راستے میں ہی اس کی سانسیں ختم ہو چکی تھیں… وہ ایک بھی محبت بھرا لفظ سن نہ سکی!
یہاں چیخوف کی کہانی ختم ہو جاتی ہے، مگر ہمیں وہیں چھوڑ جاتی ہے جہاں اکثر زندگی ہمیں لا کھڑا کرتی ہے—اس لمحے میں، جب ہم جاگتے ہیں، مگر بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
ہم آخر اپنوں کی قدر ہمیشہ آخر میں جا کر کیوں کرتے ہیں؟
ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ:
وقت پر دیا گیا ایک پھول، سب سے قیمتی تحفہ ہوتا ہے، مگر دیر سے دی گئی دولت بھی بےکار ہو جاتی ہے۔
وقت پر کہے گئے محبت بھرے الفاظ سچے ہوتے ہیں، مگر جب جذبات مر جائیں، تو شاعری بھی بے اثر ہو جاتی ہے۔
جو چیزیں دیر سے آتی ہیں، ان کا کوئی فائدہ نہیں—جیسے مرنے والے کے ماتھے پر معذرت کا بوسہ!
ہم زندگی کو بینک اکاؤنٹ سمجھ کر جیتے ہیں—محبت، نرمی، اپنائیت کو “کسی اور دن” کے لیے بچاتے رہتے ہیں۔
لیکن زندگی کوئی تجوری نہیں، جہاں محبت کو محفوظ رکھا جا سکے۔
یہاں سب کچھ “ابھی” ہے، اور “ابھی” ہی ختم ہو جاتا ہے!
ہم خوشی کو مؤخر کرتے ہیں، معافی کو ٹالتے ہیں، محبت کو روکتے ہیں، سوچتے ہیں “بعد میں کہہ دوں گا”…
لیکن “بعد” ہمیشہ نہیں آتا!
سچ یہ ہے کہ محبت وہ قرض ہے جو زندگی آپ سے واپس ضرور لیتی ہے—
یا تو مسکراہٹ میں، یا پھر آنسوؤں میں!
کسی کو وقت پر عزت دے دو، ورنہ قبر پر کتبہ لگوانا پڑے گا۔
کسی کو وقت پر محبت دے دو، ورنہ پچھتاوا ساتھ رہ جائے گا۔
کسی کو وقت پر معاف کر دو، ورنہ زندگی معافی کی مہلت بھی نہیں دے گی۔
زندگی کے سب سے قیمتی لمحات وہی ہیں، جو ابھی تمہارے پاس ہیں۔
انہیں ضائع مت کرو
انہیں محبت سے بھر دو،
انہیں زندہ رکھو!
کہیں ایسا نہ ہو کہ زندگی میں وہ وقت آ جائے، جب تمہیں کہنا پڑے…
“کاش میں نے اس سے پہلے کہہ دیا ہوتا!”
وقت پر دی گئی محبت مسکراہٹ میں بدلتی ہے، اور دیر سے دی گئی محبت پچھتاوے میں۔
WELL-MAN Story of the Day
بچوں کو سڑک کیلئے تیار کریں

بچوں کو سڑک کے لئے تیار کریں۔۔۔

ماہرینِ نفسیات کے مطابق ذہانت کی چار اقسام ہیں۔

1) انٹیلی جینٹ کوشینٹ (IQ)
2) ایموشنل کوشینٹ (EQ)
3) سوشل کوشینٹ (SQ)
4) ایڈورسٹی کوشینٹ (AQ)

1. ذہانت کا حصہ (IQ)
یہ عقل و فہم کی سطح کا پیمانہ ہے۔ آپ کو ریاضی کو حل کرنے، چیزیں یاد کرنے اور سبق یاد کرنے کے لیے IQ کی ضرورت ہے۔

2. جذباتی اقتباس (EQ)
یہ دوسروں کے ساتھ امن برقرار رکھنے، وقت کی پابندی، ذمہ دار، ایماندار، حدود کا احترام، عاجز، حقیقی اور خیال رکھنے کی آپ کی صلاحیت کا پیمانہ ہے۔

3. سماجی اقتباس (SQ)
یہ دوستوں کا نیٹ ورک بنانے اور اسے طویل عرصے تک برقرار رکھنے کی آپ کی صلاحیت کا پیمانہ ہے۔

جن لوگوں کا EQ اور SQ زیادہ ہوتا ہے، وہ زندگی میں ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ آگے بڑھتے ہیں جن کا IQ زیادہ ہوتا ہے لیکن عموماً EQ اور SQ کم ہوتا ہے، کیونکہ ہمارے معاشرے میں اس کا کوئی خاص شعور نہیں۔ زیادہ تر اسکول IQ کی سطح کو بہتر بناکر فائدہ اٹھاتے ہیں جبکہ EQ اور SQ پر کم توجہ دی جاتی ہے۔

ایک اعلیٰ IQ والا آدمی اعلیٰ EQ اور SQ والے آدمی کے ذریعہ ملازمت حاصل کر سکتا ہے حالانکہ اس کا IQ اوسط ہو۔
آپ کا EQ آپ کے کردار کی نمائندگی کرتا ہے، جبکہ آپ کا SQ آپ کی کرشماتی شخصیت کی نمائندگی کرتا ہے۔
ایسی عادات کو اپنائیں جو ان تینوں Qs کو بہتر بنائے گی، خاص طور پر آپ کے EQ اور SQ۔

4. مشکلات (مصیبت) (adversity) کا حصّہ (AQ)
زندگی میں کسی نہ کسی مشکل سے گزرنے، اور اپنا کنٹرول کھوئے بغیر اس سے باہر آنے کی آپ کی صلاحیت کا پیمانہ۔
مشکلات کا سامنا کرنے پر، AQ طے کرتا ہے کہ کون ہار مانے گا، کون اپنے خاندان کو چھوڑ دے گا، اور کون خودکشی پر غور کرے گا؟

والدین براہِ کرم اپنے بچوں کو صرف اکیڈمک ریکارڈ بنانے کے علاوہ زندگی کے دیگر شعبوں سے بھی روشناس کرائیں۔ انہیں تنگ دستی میں گزارہ کرنے اور مشقت کو پسند کرنے اور اس سے تحمل کے ساتھ نکلنے کے لیے بھی تیار کریں۔
ان کا آئی کیو، نیز ان کا EQ ، SQ اور AQ تیار کریں۔ انہیں کثیر جہتی انسان بننا چاہیے تاکہ وہ آزادانہ طور پر کام کرسکیں۔
اپنے بچوں کے لیے سڑک تیار نہ کریں بلکہ اپنے بچوں کو سڑک کے لیے تیار کریں۔۔۔!!!

کسی کو صرف کمتر نہ سمجھیں۔۔۔بلکہ

ایک دفعہ کا ذکر ہے، ایک گاؤں میں ایک لڑکا رہتا تھا، بشیر. بہت نالائق اور نکھٹو طبیعت کا تھا…اس کے اسکول میں استاد اور استانیاں اس سے نالاں رہتے تھے اور ساتھی مذاق اڑاتے تھے.
ایک دن، بشیر کی اماں اسکول آئیں اور استانی جی سے اپنے پیارے بیٹے کی پڑھائی پر بات کرنا چاہی….!!!
https://wellmanpower.pk
View Catalogue: Click Here
 
استانی جی تو بھری بیٹھی تھیں. بشیر کی بے وقوفی اور پڑھائی میں غیر دلچسپی کی داستانیں بغیر لگی لپٹی رکھے، اس کی اماں کو سنا ڈالیں. کہ یہ اتنا نالائق ہے کہ اگر اسکا باپ زندہ ہوتا اور بینک کا مالک بھی ہوتا تب بھی اس کو نوکری پہ نا رکھوا پاتا.
بیوہ ماں پر سکتہ طاری ہو گیا. بغیر کچھ کہے، اپنے پیارے بیٹے کا ہاتھ پکڑا اور اسکول سے چلی گئی. نہ صرف اسکول، بلکہ وہ گاؤں بھی چھوڑ کر شہر چلی آئی.
وقت گزرتا گیا، گاؤں بڑھ کر قصبہ بن گیااور 25 سال گزر گئے. اسکول کی استانی جی کو دل میں شدید درد محسوس ہوا.
ہسپتال میں داخل کرایا لیکن درد بڑھتا رہا اور سب لوگوں نے، قریب بڑے شہر کے اچھے ہسپتال میں اوپن ہارٹ سرجری کا مشورہ دیا.
سب کے مشورے سے وہ شہر چلی آئیں اور سرجری کروالی. آپریشن کامیاب رہا اور انھیں کمرے میں لے جا یا گیا۔۔۔۔
 
بیہوشی کی ادویات کے زیر اثر، انھوں نے آنکھ کھولی تو سامنے ایک خوبصورت نوجوان مسکراتا نظر آیا.
اسے پہچاننے کی کوشش کرتے ہوتے یکدم انکا رنگ نیلا پڑنے لگا انھوں نے انگلی سے ڈاکٹر کی طرف اشارہ کرکے کچھ کہنا چاہا لیکن شاید مصنوعی آکسیجن بند ہو چکی تھی…….
ڈاکٹر خوفزدہ اور پریشان ہو گیا اور اس نے آگے بڑھ کر انھیں سنبھالنے کی کوشش کی. لیکن استانی جی نے لمحوں میں ہی دم توڑ دیا.
ڈاکٹر کی آنکھوں میں آنسو تھے. وہ پلٹا تو دیکھا کہ ہسپتال کے بھنگی، بشیر نے، وینٹی لیٹر کا پلگ نکال کر اپنے ویکیوم کلینر کا پلک لگا دیا تھا…….
اب آپ اگر یہ سمجھ رہے تھے کہ خوبصورت ڈاکٹر وہی سادہ اور بے وقوف سا لڑکا، بشیر، تھا جس کی ماں نے اس کا ہا تھ پکڑ کر روتے ہوئے گاؤں چھوڑا تھا اور شہر آکر اس کو ڈاکٹر بنوا دیا تھا، تو پلیز جاگ جائیں…..
انڈین فلموں کے اثر سے باہر آجائیں.
حقیقی زندگی میں بشیر،
بشیر ہی رہتا ہے

ابلیس کون۔۔۔۔؟

ابلیس نے پیکٹ سے سیگریٹ نکال کےسلگایا اور پہلا کش لگاتے ہی زور زور سے کھانسنے لگا ۔
“یار یہ ہر چیز جعلی ہے آپ کے ہاں ۔۔”
ابلیس نے کھانسی کو دہراتے ہوئے کہا ۔
میں طنزیہ ہنستے کہا ۔۔
” یہ مکروفریب اور دھوکہ دہی تمہاری ہی سکھائی ہوئی ہے”
نہیں نہیں یہ بہتان ہے مجھ پہ ۔۔
ابلیس جلدی سے بولا ۔۔
سنو ابن آدم ۔۔
 
ابلیس نے میرے دونوں ہاتھوں کو تھامتے ہوئے پوری سنجیدگی سے کہا ۔۔
” میں صرف الوہیت بابت تشکیک پھیلانے کا مجرم ہوں “
میرے بارے میں تم انسانوں نے بہت سی بے سروپا کہانیاں مشہور کر رکھیں ہیں ۔۔
اٹھو ۔۔۔ ادھر آو میں تمہیں کچھ دکھاتا ہوں ۔۔
ابلیس نے شیلف میں پڑی ساری کتابیں اٹھا کر میرے سامنے پٹخ دیں ۔
” انہیں پڑھو ابن آدم ۔۔
نفرت اور منافرت سے بھرا یہ لٹریچر میرا لکھا ہوا نہیں۔۔۔
یہ سب تمہارے شیوخ کی تصانیف ہے جنہیں نے انسانوں بیچ مسلک اور فرقہ کی فصیل کھینچ دی ۔
ادھر آو باہر دیکھو ۔۔۔
ابلیس مجھے بازو سے پکڑ کے کھینچ کے باہر سڑک پہ لے آیا ۔۔
” ان عبادتگاہوں کی بالائی منزل پہ نصب لاوڈ سپیکرز سے نشر ہوتے زہر آلود افکار کو غور سے سنو “
ابلیس نے غضبناک ہوتے ہوئے مجھے مخاطب کیا ۔۔
مقدس چاردیواری میں انسانوں ساتھ عقیدہ کی بنیاد پہ نفرت میں سکھا رہا ہوں؟؟
بولو جواب دو ۔۔۔۔ تم بولتے کیوں نہیں؟
ابلیس نے مجھے جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا ۔۔۔!
ادھر دیکھو ۔۔۔ دیکھو ادھر ۔۔۔
توہین مذہب کے جھوٹے الزام میں ہجوم ایک بے گناہ کو قتل کر رہا ہے ۔۔۔
دیکھو ان جنونیوں کو ۔۔کیا یہ سب میں کر رہا ہوں ۔۔۔؟
ابلیس نے سڑک پہ چلتے ایک مشتعل جلوس طرف میری توجہ مبذول کروائی ۔۔
میں منہ دوسری طرف پھیر کے کھڑا ہو گیا ۔۔۔ ابلیس نے پھر مجھے آستین سے کھینچا ۔۔
ادھر آو ۔۔ یہ گندگی کے ڈھیر دیکھو ۔۔ دیکھو ادھر انسانوں کے چلنے کے راستہ پہ غلاظت کے ڈھیر کون پھینک رہا ہے ۔۔؟؟
لعین میں ہوں یا تم ۔۔۔؟
 
 
شدت غضب سے ابلیس کا چہرہ کچھ اور سیاہ پڑ گیا ۔۔
ابلیس کچھ دیر خاموش کھڑا رہا پھر ایک دم دیوانگی سے مغلوب ہو کر قہقہے لگانے لگا ۔۔!
بولو کون ہے دھتکارا ہوا ۔۔؟؟
میرے پاوں میرے بدن کا بوجھ اٹھانے سے قاصر تھے ۔۔
ابلیس کے قہقہے بلند آہنگ ہوتے جا رہے تھے ۔۔
اتہاس میں پہلی بار آدم کا بیٹا ابلیس کے سامنے شرمسار اور لاجواب کھڑا تھا ۔
محمد موسیٰ

اِک خواب سناواں۔۔۔۔

ایک بار میں نے ایک عجب خواب دیکھا کہ میں مر گیا ہوں۔ میرا حساب کتاب نجانے کیسے ٹھیک نکل آیا اور ایک فرشتہ مجھے جنت میں لے گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ اک طرف قاری ابوبکر معاویہ قرات فرما رہے ہیں، دوسری طرف مولانا منظور مینگل درس دے رہے ہیں، سامنے ابتسام الہی ظہیر خطاب فرما رہے ہیں۔ وہیں کچھ فاصلے پر ان کے پیچھے ضمیر نقوی صاحب مجلس عزا سے خطاب کرتے نظر آئے ۔اس سے پیچھے علامہ راجہ ناصر عباس کی قیادت میں ماتمی جلوس نکلا ہوا تھا۔۔۔
ابھی میں اس منظر کو ہضم کرنا ہی چاہ رہا تھا۔ حیرانی میں ارد گرد دیکھتے ہوئے چلتا رہا۔ کچھ آگے بڑھا تو مفتی حنیف قریشی صاحب غلامانِ جنت کو وعظ کرتے نظر آئے۔وہیں جلالی صاحب نے حوروں کو دعوت پر پابند کر رکھا تھا۔ دودھ کی نہر کے پاس مولانا طارق جمیل صاحب فخر سے اتراتے کہہ رہے تھے کہ دیکھا حور ویسی ہی نکلی ناں جیسا میں مسلسل بیان کرتا تھا۔ شہد کے چشمے کے پاس مفتی طارق مسعود صاحب زیادہ سے زیادہ حوروں کے ساتھ شیر و شکر ہونے کے نسخے بتلا رہے تھے۔
ناصر مدنی صاحب نے اپنی محفل سجائی ہوئی تھی ” او چن مکھن، او سوہنیا، حور دا ہتھ چھڈ دے پہلاں میری سُن لے”۔ امیر اہلسنت الیاس قادری صاحب سٹرابری کھانے کا طریقہ بیان کر رہے تھے کہ سٹرابری کھاتے رُخ قبلہ اول کی جانب ہونا چاہئیے۔
میں گھبرایا گھبرایا ایک جگہ جا کر سانس درست کرنے کی غرض سے بیٹھ گیا۔ وہیں اچانک میری خدمت پر مقرر جنتی غلام حاضر ہوا۔اس نے مجھے خوشبودار جوس پلایا جو شاید ویلکم ڈرنک تھا۔ میں نے اس سے پوچھا “باقی سب تو یہیں ہیں مگر انجینئیر صاحب نظر نہیں آ رہے ؟”۔ وہ بولا “اِدھر ہی ہیں۔ بس دور ایک گوشے تک محدود کئیے ہیں تاکہ امن و امان کی صورتحال میں خلل نہ پڑے۔ وہیں سے اپنا یوٹیوب چینل چلا رہے ہیں”۔ یہ جان کر تسلی ہوئی اور پھر میں نے پوچھا“ جے سارے ای ایتھے نیں تے جہنم وچ کون اے ؟”۔ وہ بولا“ بِل گیٹس، رتھ فاؤ، مدر ٹریسا، ”۔
میں نے پوچھا وہ کیوں ؟۔ بولا” اونہاں نے بوہت چنگے کم کیتے پر اسلام قبول نہیں کیتا۔”۔ ابھی یہ سننا ہی تھا کہ ایک ایکو کرتی ہوئی یعنی سماں باندھتی ہوئی گرجدار غیبی آواز آئی جو قبلہ “آیا جے غوری” کی تھی“ او کنجراااااااااااا، او سورااااااااااااا، او بغیرتاااااااااااا، توں وی اوتھے ٹُر جااااا اپنے کج ج ج ج لگدیاں کول ل ل ل ل ل ل ل۔”
یہ سنتے ہی میری آنکھ کھُل گئی۔سردی میں میرا بدن پسینے میں شرابور تھا۔ بیگم بھی ڈر کے اُٹھ گئی۔ میں نے اسے خواب سنایا تو ہنستے ہوئی بولی “ سو جائیں، آپ جنت میں نہیں جا سکتے یہ بس خواب تھا۔” میں نے بھی اسے غصے سے کہہ دیا کہ مجھے ایسی جنت چاہئیے بھی نہیں۔ مگر پھر تادیر نیند نہ آئی۔ مجھے ڈر لگ گیا کہ کہیں خواب کا ٹوٹا ہوا سلسلہ وہیں سے بحال نہ ہو جائے اور فرشتہ پھر مجھے اسی جنت میں نہ لے جائے۔

تجربہ بمقابلہ تعلیم

ریڈ انڈینز کے اپاچی قبیلے کا بزرگ سردار انتقال کر گیا تو قبیلے کے جدید یونیورسٹی سے پڑھے ایک نوجوان نے دیگر نوجوانوں کو ساتھ ملا کر سرداری پر قبضہ کر لیا۔ چند ماہ بعد خزاں کا موسم آیا تو قبیلے والے اس کے پاس آئے اور پوچھنے لگے کہ سردار اگلی سردیاں عام سردیوں جیسی ہوں گی یا زیادہ برف پڑے گی؟

اب اس نوجوان کے پاس قدیم بزرگوں کی دانش تو تھی نہیں جو زمین آسمان دیکھ کر بتا سکتے تھے کہ کیسا موسم آنے والا ہے۔ وہ تو شہر کی یونیورسٹی سے پڑھ کر آیا تھا۔ اس نے سوچا کہ اگر کہہ دیا کہ عام سی سردی ہوگی اور زیادہ برف پڑگئی تو قبیلہ مارا جائے گا۔ اس لئے اس نے ازراہ احتیاط کہہ دیا کہ کچھ سخت سردی ہوگی، لکڑیاں جمع کر لو۔ قبیلے کے جوان لکڑیاں اکٹھی کرنے میں جٹ گئے۔

 

ہفتہ بھر سردار بے چین رہا۔ قبیلے کی زندگی کا دار و مدار اس کے فیصلے پر تھا اور وہ تکا لگا کر فیصلہ کر چکا تھا۔ لیکن وہ یونیورسٹی کا اتنا زیادہ پڑھا لکھا تھا کہ بلکل امریکی لہجے میں انگریزی بول سکتا تھا، اسے جدید علوم کا خیال آ گیا۔ اس نے مقامی محکمہ موسمیات کو گمنام فون کر کے پوچھ لیا کہ ”موسم سرما کتنا سخت ہو گا؟ “ محکمہ موسمیات کے افسر نے جواب دیا ”بہت ٹھنڈ پڑے گی“۔

اپاچی سردار نے اپنے جوانوں کو مزید لکڑیاں اکٹھی کرنے پر لگا دیا۔ اگلے ہفتے اس نے پھر محکمہ موسمیات کو فون کر کے پوچھا ”یہ سرما کتنا سخت ہو گا؟ “ محکمہ موسمیات کے افسر نے جواب دیا ”ہمارے گزشتہ اندازے سے کہیں زیادہ سردی ہوگی۔ ہر چیز جم کر رہ جائے گی“۔

نوجوان سردار نے اپنے قبیلے والوں کو مزید لکڑیاں اکٹھی کرنے پر لگا دیا اور کہا کہ لکڑی کا جو چھوٹا بڑا ٹکڑا ملے، لے آؤ۔ ہفتے بھر بعد اس نے پھر محکمہ موسمیات کو فون کیا اور پوچھا ”کیا تمہیں یقین ہے کہ یہ بہت سخت موسم سرما ہو گا؟ “ محکمے کے افسر نے جواب دیا ”یہ معلوم تاریخ کا سرد ترین موسم سرما ہوگا۔ سارے اگلے پچھلے ریکارڈ ٹوٹ جائیں گے“۔

سردار گھبرا گیا۔ اب تو مزید لکڑیاں بھی باقی نہیں بچی تھیں جو وہ کٹوا سکتا۔ اس نے ڈوبی ہوئی آواز میں پوچھا ”تم اتنے پریقین کیسے ہو کہ سردی اتنی زیادہ سخت ہوگی؟ “
محکمہ موسمیات کے افسر نے جواب دیا ”ہمیں یقین ہے کہ موسم بہت زیادہ سرد ہو گا کیونکہ اپاچی قبیلہ پاگلوں کی طرح لکڑی جمع کر رہا ہے اور اس کی پیش گوئی کبھی غلط نہیں نکلی۔

اتنی زیادہ سیلری۔۔۔! مگر کیوں؟

امریکی شخص ہنری فورڈ دنیا کا پہلا بزنس مین تھا جو اپنے ملازمین کو مارکیٹ میں سب سے زیادہ معاوضہ دیتا تھا۔

ایک بار ایک صحافی آیا اور اس نے ہنری فورڈ سے پوچھا ”آپ سب سے زیادہ معاوضہ کس کودیتے ہیں“ فورڈ مسکرایا‘ اپنا کوٹ اور ہیٹ اٹھایا اورصحافی کو اپنے پروڈکشن روم میں لے گیاجہاں ہر طرف کام ہو رہا تھا‘ لوگ دوڑ رہے تھے‘ گھنٹیاں بج رہی تھیں اور لفٹیں چل رہی تھیں‘ ہر طرف افراتفری تھیں‘ اس افراتفری میں ایک کیبن تھا اور اس کیبن میں ایک شخص میز پر ٹانگیں رکھ کر کرسی پر لیٹا تھا‘ اس نے منہ پر ہیٹ رکھا ہوا تھا‘ ہنری فورڈ نے دروازہ بجایا‘ کرسی پر لیٹے شخص نے ہیٹ کے نیچے سے دیکھا اور تھکی تھکی آواز میں بولا ”ہیلو ہنری آر یو اوکے“ فورڈ نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا‘ دروازہ بند کیا اور باہر نکل گیا‘ صحافی حیرت سے یہ سارا منظر دیکھتا رہا‘ فورڈ نے ہنس کر کہا ”یہ شخص میری کمپنی میں سب سے زیادہ معاوضہ لیتا ہے“ صحافی نے حیران ہو کر پوچھا ” یہ شخص کیاکرتا ہے؟“ فورڈ نے جواب دیا ”کچھ بھی نہیں‘ یہ بس آتا ہے اور سارا دن میز پر ٹانگیں رکھ کر بیٹھا رہتا ہے“ ۔

صحافی نے پوچھا ”آپ پھر اسے سب سے زیادہ معاوضہ کیوں دیتے ہیں“ فورڈ نے جواب دیا ”کیوں کہ یہ میرے لیے سب سے مفید شخص  ہے“  فورڈ کا کہنا تھا ”میں نے اس شخص کوصرف سوچنے کے لیے رکھا ہوا ہے‘ میری کمپنی کے سارے سسٹم اور گاڑیوں کے ڈیزائن اس شخص کے آئیڈیاز ہیں‘ یہ آتا ہے‘ کرسی پر لیٹتا ہے‘ سوچتا ہے‘ آئیڈیا تیار کرتا ہے اور مجھے بھجوا دیتا ہے۔
میں اس پر کام کرتا ہوں اور کروڑوں ڈالر کماتا ہوں“ ہنری فورڈ نے کہا ”دنیا میں سب سے زیادہ قیمتی چیز آئیڈیاز ہوتے ہیں اور آئیڈیاز کے لیے آپ کو فری ٹائم چاہیے ہوتا ہے‘ مکمل سکون‘ ہر قسم کی بک بک سے آزادی‘ آپ اگر دن رات مصروف ہیں تو پھرآپ کے دماغ میں نئے آئیڈیاز اور نئے منصوبے نہیں آ سکتے چناں چہ میں نے ایک سمجھ دار شخص کو صرف سوچنے کے لیے رکھا ہوا ہے‘ میں نے اسے معاشی آزادی بھی دے رکھی ہے تاکہ یہ روز مجھے کوئی نہ کوئی نیا آئیڈیا دے سکے“ صحافی تالی بجانے پر مجبور ہو گیا۔

آپ بھی اگر ہنری فورڈ کی وزڈم سمجھنے کی کوشش کریں گے تو آپ بھی بے اختیار تالی بجائیں گے‘ انسان اگر مزدور یا کاریگر ہے تو پھر یہ سارا دن کام کرتا ہے لیکن یہ جوں جوں اوپر جاتا رہتا ہے اس کی فرصت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ بڑی انڈسٹریز اور نئے شعبوں کے موجد پوراسال گھر سے باہر قدم نہیں رکھتے۔
بزنس کی دنیا میں بل گیٹس اور وارن بفٹ بھی ویلے ترین لوگ ہیں‘ وارن بفٹ روزانہ ساڑھے چار گھنٹے پڑھتے ہیں‘ بل گیٹس ہفتے میں دو کتابیں ختم کرتے ہیں‘ یہ سال میں 80 کتابیں پڑھتے ہیں‘ یہ دونوں اپنی گاڑی خود چلاتے ہیں‘ لائین میں لگ کر کافی اور برگر لیتے ہیں اور سمارٹ فون استعمال نہیں کرتے لیکن یہ اس کے باوجود دنیا کے امیر ترین لوگ ہیں‘ کیسے؟ فرصت اور سوچنے کی مہلت کی وجہ سے۔
ہم جب تک ذہنی طور پر فری نہیں ہوتے ہمارا دماغ اس وقت تک بڑے آئیڈیاز پر کام نہیں کرتا، چنانچہ آپ اگر دنیا میں کوئی بڑا کام کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو اپنے آپ کو فری رکھنا ہو گا‘ آپ اگر خود کو چھوٹے چھوٹے کاموں میں الجھائے رکھیں گے تو پھر آپ سوچ نہیں سکیں گے‘ آپ پھر زندگی میں کوئی بڑا کام نہیں کر سکیں گے۔

Please Share Our Story on Social Media. Just Click on Icon & Send